کم سے کم دنیا سے اتنا مرا رشتہ ہو جائے
کوئی میرا بھی برا چاہنے والا ہو جائے
اسی مجبوری میں یہ بھیڑ اکٹھا ہے یہاں
جو ترے ساتھ نہیں آئے وہ تنہا ہو جائے
شکر اس کا ادا کرنے کا خیال آئے کسے
ابر جب اتنا گھنا ہو کہ اندھیرا ہو جائے
ہاں نہیں چاہئے اس درجہ محبت تیری
کہ مرا سچ بھی ترے جھوٹ کا حصہ ہو جائے
بند آنکھوں نے سرابوں سے بچایا ہے مجھے
آنکھ والا ہو تو اس کھیل میں اندھا ہو جائے
میں بھی قطرہ ہوں تری بات سمجھ سکتا ہوں
یہ کہ مٹ جانے کے ڈر سے کوئی دریا ہو جائے
بس اسی بات پہ آئینوں سے بگڑی میری
چاہتا تھا مرا اپنا کوئی چہرہ ہو جائے
بزم یاراں میں یہی رنگ تو دیتے ہیں مزہ
کوئی روئے تو ہنسی سے کوئی دہرا ہو جائے
غزل
کم سے کم دنیا سے اتنا مرا رشتہ ہو جائے
شارق کیفی