کم نہیں یہ بھی زندگی کے لئے
جان جائے تری خوشی کے لئے
دوستی ہو وفا ہو نفرت ہو
کچھ بہانہ ہو زندگی کے لئے
آپ کی یاد کا بس ایک دیا
ہے بہت دل کی روشنی کے لئے
وہ جو مانگے تو جان بھی دے دوں
جی رہا ہوں اسی خوشی کے لئے
بارہا خون کر لیا دل کو
اس کے ہونٹوں کی اک ہنسی کے لئے
آج کے دور میں سنو عارفؔ
کوئی مرتا نہیں کسی کے لئے
غزل
کم نہیں یہ بھی زندگی کے لئے
عارف حسن خان