کلیوں میں تازگی ہے نہ خوشبو گلاب میں
پہلی سی روشنی کہاں جام شراب میں
پوچھو نہ مجھ سے عشق و محبت کے سلسلے
لذت سی مل رہی ہے مجھے ہر عذاب میں
یہ راز جانتی نہ تھی تاروں کی روشنی
کتنا حسین چاند چھپا تھا نقاب میں
دو کانپتے لرزتے لبوں کی نوازشیں
لہرا کے ڈھل گئیں مرے جام شراب میں
ہم ہیں گناہ گار مگر اس قدر نہیں
جتنے گناہ آئے ہیں اپنے حساب میں
لکھی گئی جو میرے ہی خوابوں کے خون سے
راہی مرا ہی نام نہیں اس کتاب میں

غزل
کلیوں میں تازگی ہے نہ خوشبو گلاب میں
سوہن راہی