کلیوں کی طرح دھلا دھلا ہے
وہ جسم شمال میں بنا ہے
گل بار ہیں زلف و شانہ اس کے
قامت میں وہ طویل و دل ربا ہے
لمحوں کے سمندر میں جیسے
بہتا ہوا چاند آ رہا ہے
ہونٹوں سے وہ دیکھتا ہے مجھ کو
آنکھوں سے مجھے پکارتا ہے
گزری ہے رموں میں عمر میری
ہرنوں سے مرا معاشقہ ہے
جمشیدؔ سنبھل کے اس بدن پر
بس خندۂ سرخ کی ردا ہے

غزل
کلیوں کی طرح دھلا دھلا ہے
جمشید مسرور