EN हिंदी
کلی پہ رنگ گلوں پر نکھار بھی تو نہیں | شیح شیری
kali pe rang gulon par nikhaar bhi to nahin

غزل

کلی پہ رنگ گلوں پر نکھار بھی تو نہیں

عرش ملسیانی

;

کلی پہ رنگ گلوں پر نکھار بھی تو نہیں
بہار خاک امید بہار بھی تو نہیں

کچھ ایسی آگ لگی ہے مرے گلستاں میں
یہاں شجر کوئی بے برگ و بار بھی تو نہیں

اسی فریب میں رہتا کہ پاس ہے منزل
ستم تو یہ ہے کہ رہ میں غبار بھی تو نہیں

مجھے زمانے نے بخشی ہے وہ فریب کی مے
نشہ تو ایک طرف ہے خمار بھی تو نہیں

سمجھ میں آتی نہیں سرد مہریٔ دنیا
کسی کے سینے میں غم کا شرار بھی تو نہیں

قرار دل کے لئے ڈھونڈھتا مگر توبہ
ترے بغیر یہ اب بیقرار بھی تو نہیں

نکل تو جاؤ جہان خراب سے اے عرشؔ
مگر یہاں کوئی جائے فرار بھی تو نہیں