کلی کلی کے بجا رازدار ہیں ہم لوگ
چمن کو فخر ہے جن پر وہ خار ہیں ہم لوگ
لہو سے اپنے گلستاں کو سبزہ زار کیا
بہت خلوص کے آئینہ دار ہیں ہم لوگ
حقیر جان کے ٹھکرا رہے ہیں اہل چمن
چمن میں اپنی جگہ خود بہار ہیں ہم لوگ
کچھ ایسا گردش دوراں کا دیکھتے ہیں فسوں
کہ آج اہل گلستاں پہ بار ہیں ہم لوگ
ستم یہ ہے کہ زمانہ کا غم اٹھانے پر
قرار پاتے نہیں بے قرار ہیں ہم لوگ
یہی ہے دعوت عیش و نشاط روز و شب
خوشی کا ذکر نہیں اشک بار ہیں ہم لوگ
ہمارے عہد گزشتہ کی دیکھیے تاریخ
خود اپنی شان میں ذی افتخار ہیں ہم لوگ
قدم قدم پہ مصائب اٹھا رہے ہیں خضرؔ
خدا گواہ کہ پھر غم گسار ہیں ہم لوگ

غزل
کلی کلی کے بجا رازدار ہیں ہم لوگ
خضر برنی