کلی کلی کا بدن پھوڑ کر جو نکلا ہے
وہ زندگی کا نہیں موت کا تقاضا ہے
ہر ایک جھوٹا پیمبر ہے یہ بھی ٹھیک نہیں
کہیں کہیں تو مگر سب کے ساتھ گھپلا ہے
میں اس کا برف بدن روندھ کر پشیماں ہوں
مگر جو دور کھڑے ہیں انہیں وہ شعلہ ہے
جو تھوکتا ہے ہر ایک چیز کو اندھیرے سے
کبھی کبھی وہی دن مجھ میں ڈوب جاتا ہے
ہر ایک سمت غلاظت بھرے سمندر ہیں
مگر یہ میں نے کنارے کھڑے ہی سمجھا ہے
غزل
کلی کلی کا بدن پھوڑ کر جو نکلا ہے
فضل تابش