EN हिंदी
کل وہ جو پئے شکار نکلا | شیح شیری
kal wo jo pa-e-shikar nikla

غزل

کل وہ جو پئے شکار نکلا

میر محمدی بیدار

;

کل وہ جو پئے شکار نکلا
ہر دل ہو امیدوار نکلا

جینے کی نہیں امید ہم کو
تیر اس کا جگر کے پار نکلا

ہم خاک بھی ہو گئے پر اب تک
دل سے نہ ترے غبار نکلا

جوں بام پہ بے نقاب ہو کر
وہ ماہ رخ ایک بار نکلا

اس روز مقابل اس کے خورشید
نکلا بھی تو شرمسار نکلا

غم خوار ہو کون اب ہمارا
جب تو ہی نہ غم گسار نکلا

تھے جس کی تلاش میں ہم اب تک
پاس اپنے ہی وہ نگار نکلا

ہر چند میں کی سرشک باری
پر دل سے نہ یہ بخار نکلا

بیدارؔ ہے خیر تو کہ شب کو
جوں شمع تو اشک بار نکلا

گزرا ہے خیال کس کا جی میں
ایسا جو تو بے قرار نکلا