کل وہ جو پئے شکار نکلا
ہر دل ہو امیدوار نکلا
جینے کی نہیں امید ہم کو
تیر اس کا جگر کے پار نکلا
ہم خاک بھی ہو گئے پر اب تک
دل سے نہ ترے غبار نکلا
جوں بام پہ بے نقاب ہو کر
وہ ماہ رخ ایک بار نکلا
اس روز مقابل اس کے خورشید
نکلا بھی تو شرمسار نکلا
غم خوار ہو کون اب ہمارا
جب تو ہی نہ غم گسار نکلا
تھے جس کی تلاش میں ہم اب تک
پاس اپنے ہی وہ نگار نکلا
ہر چند میں کی سرشک باری
پر دل سے نہ یہ بخار نکلا
بیدارؔ ہے خیر تو کہ شب کو
جوں شمع تو اشک بار نکلا
گزرا ہے خیال کس کا جی میں
ایسا جو تو بے قرار نکلا
غزل
کل وہ جو پئے شکار نکلا
میر محمدی بیدار