EN हिंदी
کل اس کے نیک بننے کا امکان بھی تو ہے | شیح شیری
kal uske nek banne ka imkan bhi to hai

غزل

کل اس کے نیک بننے کا امکان بھی تو ہے

نیر قریشی گنگوہی

;

کل اس کے نیک بننے کا امکان بھی تو ہے
مجرم ضرور ہے مگر انسان بھی تو ہے

چہرہ حسیں وہ دشمن ایمان بھی تو ہے
لیکن نشاط روح کا سامان بھی تو ہے

غربت کی ٹھوکروں میں جو پل کر جواں ہوا
طوفاں کے روبرو وہی چٹان بھی تو ہے

کل تک اٹھی تھیں جس کی شرافت پہ انگلیاں
اپنے کئے پہ آج پشیمان بھی تو ہے

ہوں اپنے دوستوں کی نگاہوں میں محترم
مجھ کو ملا خلوص کا وردان بھی تو ہے

قربت ہے اس کی وجہ قرار و سکوں مگر
اس کا شباب حشر کا سامان بھی تو ہے

سمجھا گیا ہے جس کو شرافت کا پاسدار
باطن میں بد شعار وہ شیطان بھی تو ہے

قاتل تو گھر پہ کیسے کہوں میں برا بھلا
عزت مآب ہے مرا مہمان بھی تو ہے

نیرؔ جنون شوق میں رسوا ہوا تو کیا
اس کی الگ سماج میں پہچان بھی تو ہے