کل تلک جو تھا تصور انجمن آرائیوں کا
وہ مقدر بن گیا ہے اب مری تنہائیوں کا
زندگانی پھر بکھرنے ٹوٹنے والی ہے شاید
اے زمیں پھر آ گیا موسم تری انگڑائیوں کا
اس جہاں میں آج جس کے سر پہ تاج خسروی ہے
سارا قصہ بس اسی کے نام ہے دانائیوں کا
آدمی مجھ کو بنایا ہے انہی رسوائیوں نے
ہے ازل سے ساتھ میرا اور مری رسوائیوں کا
اے ولیؔ رشتہ سمندر سے ہے دل کا کچھ یقیناً
کوئی اندازہ لگا پایا نہ ان گہرائیوں کا
غزل
کل تلک جو تھا تصور انجمن آرائیوں کا
ولی اللہ ولی