EN हिंदी
کل تک اس کی وہ مہربانی تھی | شیح شیری
kal tak uski wo mehrbani thi

غزل

کل تک اس کی وہ مہربانی تھی

مرزا جواں بخت جہاں دار

;

کل تک اس کی وہ مہربانی تھی
آج دیکھا تو سرگرانی تھی

کیا غمگین اس نے ہم کو نت
جس کے ملنے کی شادمانی تھی

گو بہ ظاہر وہ غیر سے تھا دو چار
ہم سے بھی دوستی نبھانی تھی

جل بجھے تب کھلا پتنگوں پر
شمع اور دوستی زبانی تھی

آ گیا رحم اس کے دل میں آہ
ہم نے یوں اپنی مرگ ٹھانی تھی

سو گیا سنتے ہی وہ غم کی مرے
سرگزشت اس کے تئیں کہانی تھی

نہ جہاں دارؔ جانے تھا اے میرؔ
دوستی مدعیٔ جانی تھی