کل تک اس کی وہ مہربانی تھی
آج دیکھا تو سرگرانی تھی
کیا غمگین اس نے ہم کو نت
جس کے ملنے کی شادمانی تھی
گو بہ ظاہر وہ غیر سے تھا دو چار
ہم سے بھی دوستی نبھانی تھی
جل بجھے تب کھلا پتنگوں پر
شمع اور دوستی زبانی تھی
آ گیا رحم اس کے دل میں آہ
ہم نے یوں اپنی مرگ ٹھانی تھی
سو گیا سنتے ہی وہ غم کی مرے
سرگزشت اس کے تئیں کہانی تھی
نہ جہاں دارؔ جانے تھا اے میرؔ
دوستی مدعیٔ جانی تھی

غزل
کل تک اس کی وہ مہربانی تھی
مرزا جواں بخت جہاں دار