کل تک کتنے ہنگامے تھے اب کتنی خاموشی ہے
پہلے دنیا تھی گھر میں اب دنیا سے رو پوشی ہے
پل بھر جاگے گہری نیند کا جھونکا آیا ڈوب گئے
کوئی غفلت سی غفلت مدہوشی سی مدہوشی ہے
جتنا پیار بڑھایا ہم سے اتنا درد دیا دل کو
جتنے دور ہوئے ہو ہم سے اتنی ہم آغوشی ہے
سب کو پھول اور کلیاں بانٹو ہم کو دو سوکھے پتے
یہ کیسے تحفے لائے ہو یہ کیا برگ فروشی ہے
رنگ حقیقت کیا ابھرے گا خواب ہی دیکھتے رہنے سے
جس کو تم کوشش کہتے ہو وہ تو لذت-کوشی ہے
ہوش میں سب کچھ دیکھ کے بھی چپ رہنے کی مجبوری تھی
کتنی معنی خیز جمیلؔ ہماری یہ بے حوشی ہے
غزل
کل تک کتنے ہنگامے تھے اب کتنی خاموشی ہے
جمیل ملک