EN हिंदी
کل تک کتنے ہنگامے تھے اب کتنی خاموشی ہے | شیح شیری
kal tak kitne hangame the ab kitni KHamoshi hai

غزل

کل تک کتنے ہنگامے تھے اب کتنی خاموشی ہے

جمیل ملک

;

کل تک کتنے ہنگامے تھے اب کتنی خاموشی ہے
پہلے دنیا تھی گھر میں اب دنیا سے رو پوشی ہے

پل بھر جاگے گہری نیند کا جھونکا آیا ڈوب گئے
کوئی غفلت سی غفلت مدہوشی سی مدہوشی ہے

جتنا پیار بڑھایا ہم سے اتنا درد دیا دل کو
جتنے دور ہوئے ہو ہم سے اتنی ہم آغوشی ہے

سب کو پھول اور کلیاں بانٹو ہم کو دو سوکھے پتے
یہ کیسے تحفے لائے ہو یہ کیا برگ فروشی ہے

رنگ حقیقت کیا ابھرے گا خواب ہی دیکھتے رہنے سے
جس کو تم کوشش کہتے ہو وہ تو لذت-کوشی ہے

ہوش میں سب کچھ دیکھ کے بھی چپ رہنے کی مجبوری تھی
کتنی معنی خیز جمیلؔ ہماری یہ بے حوشی ہے