کل تک جو دل غرور جلال و جمال تھا
آج ان کے راستے میں پڑا پائمال تھا
زنجیر تھی کہیں نہ کہیں کوئی جال تھا
لیکن تری فضا سے نکلنا محال تھا
تھا تیر ان کے پاس وہی ایک بے نظیر
اور زخم جو لگا وہ بھی اپنی مثال تھا
اس نے بھلا کہا کہ برا اس کی خیر ہو
میں سن کے چپ رہا تو یہ میرا کمال تھا
چپ چاپ سر جھکائے ہوئے میں گزر گیا
میں جانتا تھا جو تری بستی کا حال تھا
اچھا ہوا گزر گیا اخترؔ جہان سے
مدت سے وہ سعیدؔ کے غم میں نڈھال تھا

غزل
کل تک جو دل غرور جلال و جمال تھا
سعید احمد اختر