EN हिंदी
کل رات کئی خواب پریشاں نظر آئے | شیح شیری
kal raat kai KHwab-e-pareshan nazar aae

غزل

کل رات کئی خواب پریشاں نظر آئے

رئیس امروہوی

;

کل رات کئی خواب پریشاں نظر آئے
جو شہر کہ آباد تھے ویراں نظر آئے

بکھری ہوئی روندی ہوئی لاشوں سے گزر کر
ٹوٹے ہوئے مینار شہیداں نظر آئے

کہسار ہمالہ کی جھلک خواب میں دیکھی
گنگا میں ابلتے ہوئے طوفاں نظر آئے

پہلے تو کسی قریۂ برباد میں ٹھہرے
آگے جو بڑھے گور غریباں نظر آئے

مہکی ہوئی اجداد کی خوشبو سے ہوائیں
ہر گام پہ آثار عزیزاں نظر آئے

جس گھر میں فرشتوں کی ضیا تھی اسی گھر میں
ارواح خبیثہ کے چراغاں نظر آئے

جو مطلع تقدیس محبت تھے وہ چہرے
خفگی کے سبب ہم سے گریزاں نظر آئے

ہم جن کو دغا دے کے کہیں بھاگ گئے تھے
وہ اہل حرم با سر عریاں نظر آئے

اک پیر مقدس کا ہیولیٰ نظر آیا
پھر ریش سفید و در دنداں نظر آئے

ہم جن کی پریشانیٔ خاطر کا سبب تھے
وہ عالم رویا میں پریشاں نظر آئے

اک دامن عصمت کی کرن دور سے پھوٹی
دامن پہ کئی گوہر غلطاں نظر آئے

تھی جس کے تبسم میں ملائک کی حلاوت
صد حیف کہ وہ خواب میں گریاں نظر آئے

اس شہر کو جو شخص کے مولد کا شرف ہو
وہ شخص اسی شہر میں مہماں نظر آئے

لب پر ہے رئیسؔ اپنے یہ مصرع کئی دن سے
کل رات کئی خواب پریشاں نظر آئے