کل رات جگمگاتا ہوا چاند دیکھ کر
سائے نکل پڑے تھے بدن سے ادھر ادھر
دروازہ بند کر کے بہت خوش ہوا تھا میں
کوٹھے پھلانگنے لگیں رسوائیاں مگر
میں ڈوبنے گیا تو کنارا پکار اٹھا
یہ خواب تو نہیں ہے پہ صاحب ادھر کدھر
ماتم بھی ہو ہی جائے گا مر کے تو دیکھیے
اتنے بہت سے لوگ ہیں اتنے بہت سے گھر
علویؔ غزل تو کہنے چلے ہو نئی مگر
رکھ دو نہ تم خیال کے بخیے ادھیڑ کر
غزل
کل رات جگمگاتا ہوا چاند دیکھ کر
محمد علوی