کل خواب میں دیکھا سکھی میں نے پیا کا گاؤں رے
کانٹا وہاں کا پھول تھا اور دھوپ جیسے چھاؤں رے
جو دیکھنا چاہے انہیں آ کر مجھی کو دیکھ لے
ان کا مرا اک روپ رے ان کا مرا اک ناؤں رے
ہے ساتھ یوں دن رات کا کنگنا سے جیسے ہاتھ کا
دل میں الجھا ہے یوں پائل میں جیسے پاؤں رے
مہندی میں لالی جس طرح کانوں میں بالی جس طرح
جب یوں ملے تو کیا چلے دنیا کا ہم پہ داؤں رے
سب سے سرل بھاشا وہی سب سے مدھر بولی وہی
بولیں جو نینا بانورے سمجھیں جو سیاں سانورے
ہم کب ملے کیسے ملے کوئی نہ جانے بھید یہ
تھوڑا بہت جانیں حسنؔ لیکن وہ ٹھہرا بانورے

غزل
کل خواب میں دیکھا سکھی میں نے پیا کا گاؤں رے
حسن کمال