EN हिंदी
کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں | شیح شیری
kal ke liye kar aaj na KHissat sharab mein

غزل

کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں

مرزا غالب

;

کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں
یہ سوء ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دم سماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بعد ہے
جتنا کہ وہم غیر سے ہوں پیچ و تاب میں

اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

ہے مشتمل نمود صور پر وجود بحر
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں

شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یوں حجاب میں

آرایش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئنہ دایم نقاب میں

ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

غالبؔ ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغول حق ہوں بندگی بو تراب میں