کل کہاں بچاری بلبل اور کہاں بچارا گل
آج بلبل دید کر لے باغ کی نظارہ گل
خالی از شر یہ چٹکنے کی صدا ہرگز نہیں
صبح دم کرتا ہے اپنے کوچ کا نقارا گل
غنچہ جب تک چپ رہا ہر طرح خاطر جمع تھی
خندۂ مفرط نے لیکن کر دیا آوارہ گل
ظاہرا باطن سبک تھا کچھ گرانی آ گئی
ہو گیا بلبل کی جانب سے جو سنگ خارا گل
کیوں نہ گزرے دم بہ دم بلبل کا پرچہ اے وقارؔ
رکھتا ہے باد صبا کا باغ میں ہرکارہ گل
غزل
کل کہاں بچاری بلبل اور کہاں بچارا گل
کشن کمار وقار

