کل کا وعدہ نہ کرو دل مرا بیکل نہ کرو
کل پڑے گی نہ مجھے مجھ سے یہ کل کل نہ کرو
کہیں جلا دے نہ اسے شعلۂ آہ عاشق
پلکوں کی ٹٹی کے تئیں آنکھوں کی اوجھل نہ کرو
کر چکی تیغ نگاہ کام تو پل ہی میں تمام
تیر پلکوں کا مقابل مرے پل پل نہ کرو
اس کو ہر شب ہے زوال اس کو نہیں ہے کچھ نقص
بدر کو چہرے سے اس کے متمثل نہ کرو
دکھ نہ پاوے کہیں وہ نازنیں گردن پیارے
تکیہ زنہار سر بالش مخمل نہ کرو
غزل
کل کا وعدہ نہ کرو دل مرا بیکل نہ کرو
آفتاب شاہ عالم ثانی