کل جو رونے پر مرے ٹک دھیان اس کا پڑ گیا
ہنس کے یوں کہنے لگا کچھ'' آنکھ میں کیا پڑ گیا؟''
بیٹھے بیٹھے آپ سے کر بیٹھتا ہوں کچھ گناہ
پاؤں پڑنے کا جو اس کے مجھ کو چسکا پڑ گیا
جنگ جوئی کیا کہوں اس کی کہ کل پرسوں میں آہ
صلح ٹک ہونے نہ پائی تھی کہ جھگڑا پڑ گیا
سوزش دل کچھ نہ پوچھو تم کہ ٹک سینے پہ رات
ہاتھ رکھتے ہی ہتھیلی میں پھپھولا پڑ گیا
بس کہ تھا بے بال و پر میں دامن صیاد پر
خون بھی اڑ کر دم بسمل نہ میرا پڑ گیا
جو مرے بد گو ہیں تم ان کو سمجھتے ہو بھلا
واہ وا مجھ سے تمہیں یہ بیر اچھا پڑ گیا
کیوں پڑا دم توڑتا ہے بستر غم پر دلا
آہ کس بے درد کے ملنے میں توڑا پڑ گیا
بہتری کا منہ نہ دیکھا مر ہی کر پائی نجات
کڑھتے کڑھتے دل مرا بیمار ایسا پڑ گیا
باتیں کرتے کرتے پیارے دل دھڑکنے کیوں لگا
سن کے کچھ آہٹ کہو کیا دل میں کھٹکا پڑ گیا
رک گیا ایسا ہی وہ جو پھر نہ آیا کل جو ٹک
ہاتھ اس کے پاؤں پر بھولے سے میرا پڑ گیا
میں تو یاں اس بات پر اپنے پڑا ملتا ہوں ہاتھ
اور سارے شہر میں کچھ اور چرچا پڑ گیا
گرچہ ہوں میں نام کو جرأتؔ پر اب اس کی طرف
آنکھ اٹھا سکتا نہیں یہ دل میں خطرا پڑ گیا
غزل
کل جو رونے پر مرے ٹک دھیان اس کا پڑ گیا
جرأت قلندر بخش