EN हिंदी
کل جنہیں زندگی تھی راس بہت | شیح شیری
kal jinhen zindagi thi ras bahut

غزل

کل جنہیں زندگی تھی راس بہت

ناصر کاظمی

;

کل جنہیں زندگی تھی راس بہت
آج دیکھا انہیں اداس بہت

رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا
اک رہی ہے زمین گھاس بہت

کیوں نہ روؤں تری جدائی میں
دن گزارے ہیں تیرے پاس بہت

چھاؤں مل جائے دامن گل کی
ہے غریبی میں یہ لباس بہت

وادئ دل میں پاؤں دیکھ کے رکھ
ہے یہاں درد کی اگاس بہت

سوکھے پتوں کو دیکھ کر ناصرؔ
یاد آتی ہے گل کی باس بہت