کل ایک شخص جو اچھے بھلے لباس میں تھا
برہنہ آج وہ اترا ہوا گلاس میں تھا
ہم آفتاب درخشاں جسے سمجھتے تھے
وہ ایک وہم کا جگنو ہوس کی گھاس میں تھا
زمین و عرش کی تقسیم کے زمانے میں
بشر اسیر جنوں تھا کہاں حواس میں تھا
ازل سے پہلے ہی دھن تھی حصول پیکر کی
یہ کائنات کا خاکہ مرے قیاس میں تھا
میں کیا سلگتے سمندر سے مانگتا پانی
وہ خود بھی ایک زمانے سے غرق پیاس میں تھا
اسے نصیب کفن بھی نہیں ہوا آخر
کہ حصے دار جو اس کھیت کی کپاس میں تھا
ہم اس سوال کا اب تک جواب دے نہ سکے
جو اک فگارؔ کی پر اشک چشم یاس میں تھا
غزل
کل ایک شخص جو اچھے بھلے لباس میں تھا
امر سنگھ فگار