کیسی معنی کی قبا رشتوں کو پہنائی گئی
ایک ہی لمحہ میں برسوں کی شناسائی گئی
ہر در و دیوار پر بچپن جوانی نقش تھے
کب مرے گھر سے مرے ماضی کی دارائی گئی
اس قدر اونچی ہوئی دیوار نفرت ہر طرف
آج ہر انساں سے انساں کی پذیرائی گئی
ہر نیا دن دھوپ کی کرنوں سے تپ کر آئے ہے
جسم سے ٹھنڈک گئی آنکھوں سے بینائی گئی
اب کہاں وہ مستیاں سرگوشیاں گل ریزیاں
دامن صحرا سے جو آتی تھی پروائی گئی
وقت کی سوغات ہے نہ ہم ہیں ہم نہ تم ہو تم
ذہن سے سوچیں گئیں ہونٹوں سے سچائی گئی
آج پھر ہے حکمرانی تیرگی کی ہر طرف
روشنی اک پل کو صابرؔ آئی اور آئی گئی
غزل
کیسی معنی کی قبا رشتوں کو پہنائی گئی
صابر ادیب