کیسی کیسی نہیں کرتا رہا من مانی میں
سوچ کر اپنے لئے لکھتا تھا لا فانی میں
بھیڑ میں سب کی طرح ظلم پے چپ چاپ رہا
آج پھر اک دفعہ مر گیا انسانی میں
پیدا ہونے کے تو مطلب نہ رہے ہوں گے کچھ
بس کہ اب مرنا نہیں چاہتا بے معنی میں
ایک تاریخ کی تعمیر کرے وہ لمحہ
ایک سمندر جو رچے بوند وہی یعنی میں
غزل
کیسی کیسی نہیں کرتا رہا من مانی میں
بھویش دلشاد