EN हिंदी
کیسی ہے یہ بہار مقدر کی بات ہے | شیح شیری
kaisi hai ye bahaar muqaddar ki baat hai

غزل

کیسی ہے یہ بہار مقدر کی بات ہے

ستیہ پال جانباز

;

کیسی ہے یہ بہار مقدر کی بات ہے
دامن ہے تار تار مقدر کی بات ہے

کیا قہر ہے کہ رنگ ہے پھولوں کا زرد زرد
کانٹوں پہ ہے نکھار مقدر کی بات ہے

اس مختصر حیات میں اتنی مصیبتیں
کس کو ہے اختیار مقدر کی بات ہے

اے دوست آگہی ہمیں کوشش کے باوجود
آئی نہ سازگار مقدر کی بات ہے

ہر گام پر فریب دئے جس نصیب نے
پھر اس پہ اعتبار مقدر کی بات ہے

ساحل سے ہمکنار کرے یا ڈبو ہی دے
موجوں کا یہ ابھار مقدر کی بات ہے

جانبازؔ غیر کے لئے دنیا کی نعمتیں
میرے لئے ہے دار مقدر کی بات ہے