کیسے کیسے منظر میری آنکھوں میں آ جاتے ہیں
یادوں کے سب خنجر میری آنکھوں میں آ جاتے ہیں
میری پیاسی آنکھیں پھر بھی رہ جاتی ہیں پیاسی ہیں
یوں تو سات سمندر میری آنکھوں میں آ جاتے ہیں
کس کی یاد کا دریا میرے دل سے ہو کر بہتا ہے
کس کے درد پگھل کر میری آنکھوں میں آ جاتے ہیں
کس کی یاد کی خوشبو سے میں دن بھر مہکا رہتا ہوں
کس کے خواب سنور کر میری آنکھوں میں آ جاتے ہیں
جب بھی سوچنے لگتا ہوں میں تیرے میرے بارے میں
آٹا دلیا دفتر میری آنکھوں میں آ جاتے ہیں

غزل
کیسے کیسے منظر میری آنکھوں میں آ جاتے ہیں
صغیر عالم