کیسے کہیں کہ یاد یار رات جا چکی بہت
رات بھی اپنے ساتھ ساتھ آنسو بہا چکی بہت
چاند بھی ہے تھکا تھکا تارے بھی ہیں بجھے بجھے
ترے ملن کی آس پھر دیپ جلا چکی بہت
آنے لگی ہے یہ صدا دور نہیں ہے شہر گل
دنیا ہماری راہ میں کانٹے بچھا چکی بہت
کھلنے کو ہے قفس کا در پانے کو ہے سکوں نظر
اے دل زار شام غم ہم کو رلا چکی بہت
اپنی قیادتوں میں اب ڈھونڈیں گے لوگ منزلیں
راہزنوں کی رہبری راہ دکھا چکی بہت

غزل
کیسے کہیں کہ یاد یار رات جا چکی بہت
حبیب جالب