کیسے کہیں در بدر نہیں ہم
گھر میں بھی ہیں اور گھر نہیں ہم
جو راہ میں ساتھ چھوڑ جائیں
ایسوں کے تو ہم سفر نہیں ہم
اپنوں کی کوئی خبر نہ رکھیں
اتنے بھی تو بے خبر نہیں ہم
اٹھ جائے کب اپنا آب و دانہ
انساں ہیں کوئی خضر نہیں ہم
دیکھیں نہ اٹھا کے آنکھ اس کو
ایسے بھی تو کم نظر نہیں ہم
سچ ہے کہ خدا کے روبرو بھی
شرمندہ خطاؤں پر نہیں ہم
ہر ان کہی بات سن رہے ہیں
دیوار ہیں کوئی در نہیں ہم

غزل
کیسے کہیں در بدر نہیں ہم
محسن احسان