کیسے کہہ دوں کی ملاقات نہیں ہوتی ہے
روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے
آپ للہ نہ دیکھا کریں آئینہ کبھی
دل کا آ جانا بڑی بات نہیں ہوتی ہے
چھپ کے روتا ہوں تری یاد میں دنیا بھر سے
کب مری آنکھ سے برسات نہیں ہوتی ہے
حال دل پوچھنے والے تری دنیا میں کبھی
دن تو ہوتا ہے مگر رات نہیں ہوتی ہے
جب بھی ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیسے ہو شکیلؔ
اس سے آگے تو کوئی بات نہیں ہوتی ہے
غزل
کیسے کہہ دوں کی ملاقات نہیں ہوتی ہے
شکیل بدایونی