EN हिंदी
کیسے جانوں کہ جہاں خواب نما ہوتا ہے | شیح شیری
kaise jaanun ki jahan KHwab-numa hota hai

غزل

کیسے جانوں کہ جہاں خواب نما ہوتا ہے

صغیر ملال

;

کیسے جانوں کہ جہاں خواب نما ہوتا ہے
جبکہ ہر شخص یہاں آبلہ پا ہوتا ہے

دیکھنے والوں کی آنکھوں میں نمی تیرتی ہے
سوچنے والوں کے سینے میں خلا ہوتا ہے

لوگ اس شہر کو خوش حال سمجھ لیتے ہیں
رات کے وقت بھی جو جاگ رہا ہوتا ہے

گھر کے بارے میں یہی جان سکا ہوں اب تک
جب بھی لوٹو کوئی دروازہ کھلا ہوتا ہے

فاصلے اس طرح سمٹے ہیں نئی دنیا میں
اپنے لوگوں سے ہر اک شخص جدا ہوتا ہے

میرے محتاج نہیں ہیں یہ بدلتے موسم
مان لیتا ہوں مگر دل بھی برا ہوتا ہے

چاندنی رات نے احساس دلایا ہے ملالؔ
آدمی کتنے سرابوں میں گھرا ہوتا ہے