کیسے ہوتی ہے شب کی سحر دیکھتے
کاش ہم بھی کبھی جاگ کر دیکھتے
خواب کیسے اترتا ہے احساس میں
تیرے شانے پہ رکھ کے یہ سر دیکھتے
ایک امید تھی منتظر عمر بھر
کاش تم بھی کبھی لوٹ کر دیکھتے
برف کی جھینی چادر تلے جھیل تھی
چھو کے مجھ کو کبھی تم اگر دیکھتے
انگلیاں ان کی لیتیں نہ سنیاس تو
میری زلفوں سے بھی کھیل کر دیکھتے
ایک پرواز میں گر نہ جاتے اگر
تیرے من کا گگن میرے پر دیکھتے
بند کمروں نے کھولی نہیں سانکلیں
ورنہ سجدے میں بیٹھی سحرؔ دیکھتے
غزل
کیسے ہوتی ہے شب کی سحر دیکھتے
نینا سحر