کیسے ڈوبا ڈوب گیا
ڈوبنے والا ڈوب گیا
کیسی نیک کمائی تھی!
پیسہ پیسہ ڈوب گیا
ناؤ نہ ڈوبی دریا میں
ناؤ میں دریا ڈوب گیا
لوگ کنارے آن لگے
اور کنارہ ڈوب گیا
بارش اس نے بھیجی تھی
شہر ہمارا ڈوب گیا
ساری رات بتا ڈالی
تارہ تارہ ڈوب گیا
گوہرؔ پورا خواب سنا
پانی میں کیا ڈوب گیا

غزل
کیسے ڈوبا ڈوب گیا
گوہر ہوشیارپوری