کیسے دکھ کتنی چاہ سے دیکھا
تجھے کس کس نگاہ سے دیکھا
شدت لا زوال سے چاہا
حسرت بے پناہ سے دیکھا
اتنا سوچا تجھے کہ دنیا کو
ہم نے تیری نگاہ سے دیکھا
شوق کیا غیر معتبر ٹھہرا
تو نے جب اشتباہ سے دیکھا
اپنی تاریک زندگی میں تجھے
خوب تر مہر و ماہ سے دیکھا
اہل دل پر تری کشش کا اثر
اپنے حال تباہ سے دیکھا
دشمنوں سے جو غم نہ دیکھا تھا
کوشش خیر خواہ سے دیکھا
غم گراں تر ہے کوہ سے جانا
ہم سبک تر ہیں کاہ سے دیکھا
دائمی دوریوں کا صدمہ ضیاؔ
سرسری رسم و راہ سے دیکھا
غزل
کیسے دکھ کتنی چاہ سے دیکھا
ضیا جالندھری