EN हिंदी
کیسا طلسم آج یہ طاری ہے جسم میں | شیح شیری
kaisa tilism aaj ye tari hai jism mein

غزل

کیسا طلسم آج یہ طاری ہے جسم میں

آصف انجم

;

کیسا طلسم آج یہ طاری ہے جسم میں
تیرا ورود شوق سے جاری ہے جسم میں

تم بھی نہ جان پاؤ گے اس دل کا اضطراب
تم نے تو ایک عمر گزاری ہے جسم میں

اک سبز روشنی ہے جو گھیرے ہوئے مجھے
آیت ضحی کی کس نے اتاری ہے جسم میں

یہ میرا عشق ہے کہ جو زندہ ہے مجھ میں تو
ورنہ تو ایک سانس بھی بھاری ہے جسم میں

تب سے عجیب سوگ میں ڈوبا ہوا ہے دل
کچھ خواہشوں نے جان جو ہاری ہے جسم میں

پیران عشق کی یہ دعاؤں کا ہے اثر ہے
زمزم محبتوں کا جو جاری ہے جسم میں

شاید کہ تیری یاد کے مہکے ہیں پھول کچھ
انجمؔ جو آج رقص خماری ہے جسم میں