کیسا ساماں کیسی منزل کیسی رہ کیسا سفر
ہم سفر ہی جب نہیں ہے کیسے پھر ہوگا سفر
نفس امارہ سے نفس مطمئنہ تک کی رہ
آتشیں موسم زمیں پر خار اور تنہا سفر
حسرت دیدار ایسی فیصلہ کن تھی مری
لمحہ بھر میں ہو گیا اک عمر سا لمبا سفر
پہلے منزل سامنے تھی اب نظر سے دور ہے
جانے کیسے کیا ہوا کس موڑ پر بھٹکا سفر
ان چٹانوں میں کہاں یہ حوصلہ روکیں مجھے
کرتا ہوں جاویدؔ میں بھی صورت دریا سفر

غزل
کیسا ساماں کیسی منزل کیسی رہ کیسا سفر
جاوید جمیل