EN हिंदी
کیسا لمحہ آن پڑا ہے | شیح شیری
kaisa lamha aan paDa hai

غزل

کیسا لمحہ آن پڑا ہے

بقا بلوچ

;

کیسا لمحہ آن پڑا ہے
ہنستا گھر ویران پڑا ہے

بستر پر کچھ پھول پڑے ہیں
آنگن میں گلدان پڑا ہے

کرچی کرچی سپنے سارے
دل میں اک ارمان پڑا ہے

لوگ چلے ہیں صحراؤں کو
اور نگر سنسان پڑا ہے

اک جانب اک نظم کے ٹکڑے
اک جانب عنوان پڑا ہے