کئی سوکھے ہوئے پتے ہرے معلوم ہوتے ہیں
ہمیں دیکھو کہیں سے دل جلے معلوم ہوتے ہیں
مہینوں سے جو خالی تھا وہ کمرہ اٹھ گیا شاید
یہ الہڑ پن یہ معصومی نئے معلوم ہوتے ہیں
سمٹ آتی تھی کس اپنائیت کے ساتھ وہ کٹیا
عمارت میں تو ہم دبکے ہوئے معلوم ہوتے ہیں
غموں پر مسکرا لیتے ہیں لیکن مسکرا کر ہم
خود اپنی ہی نظر میں چور سے معلوم ہوتے ہیں
قدم لیتی ہے بڑھ کر اوس میں بھیگی ہوئی دھرتی
یہ پس ماندہ مسافر شہر کے معلوم ہوتے ہیں
بڑھاوا دے رہے ہیں مضمحل چہرے کی زردی کو
ترے جوڑے میں یہ غنچے برے معلوم ہوتے ہیں
بتائیں کیا کہ بے چینی بڑھاتے ہیں وہی آ کر
بہت بے چین ہم جن کے لیے معلوم ہوتے ہیں
پرانا ہو چکا چشمے کا نمبر بڑھ گیا شاید
ستارے ہم کو مٹی کے دیے معلوم ہوتے ہیں
سنا اے دوستو تم نے کہ شاعر ہیں مظفرؔ بھی
بہ ظاہر آدمی کتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں
غزل
کئی سوکھے ہوئے پتے ہرے معلوم ہوتے ہیں
مظفر حنفی