EN हिंदी
کئی شکلوں میں خود کو سوچتا ہے | شیح شیری
kai shaklon mein KHud ko sochta hai

غزل

کئی شکلوں میں خود کو سوچتا ہے

شین کاف نظام

;

کئی شکلوں میں خود کو سوچتا ہے
سمندر پیکروں کا سلسلہ ہے

بدلتی رت کا نوحہ سن رہا ہے
ندی سوئی ہے جنگل جاگتا ہے

بکھرنے والا خود منظر بہ منظر
مجھے کیوں ذرہ ذرہ جوڑتا ہے

سنو تو پھر ہوا کا تیز جھونکا
کسے آواز دیتا جا رہا ہے

ہوا کا ہاتھ تھامے اڑ رہا ہوں
ہوا فاصل ہوا ہی فاصلا ہے

حدود ارض میں گم ہونے والا
افق کو امکاں امکاں جانتا ہے