کئی شکلوں میں خود کو سوچتا ہے
سمندر پیکروں کا سلسلہ ہے
بدلتی رت کا نوحہ سن رہا ہے
ندی سوئی ہے جنگل جاگتا ہے
بکھرنے والا خود منظر بہ منظر
مجھے کیوں ذرہ ذرہ جوڑتا ہے
سنو تو پھر ہوا کا تیز جھونکا
کسے آواز دیتا جا رہا ہے
ہوا کا ہاتھ تھامے اڑ رہا ہوں
ہوا فاصل ہوا ہی فاصلا ہے
حدود ارض میں گم ہونے والا
افق کو امکاں امکاں جانتا ہے
غزل
کئی شکلوں میں خود کو سوچتا ہے
شین کاف نظام