کئی سوال مچلتے ہیں ہر سوال کے بعد
شب وصال سے پہلے شب وصال کے بعد
نہ جانے کیوں یہ مرا دل دھڑکنے لگتا ہے
ترے خیال سے پہلے ترے خیال کے بعد
ہر ایک داؤ سے واقف تھی اے مرے ہمدم
میں تیری چال سے پہلے میں تیری چال کے بعد
نہ جانے کیوں تری یادیں طواف کرتی ہیں
کسی ملال سے پہلے کسی ملال کے بعد
تری قسم ترا چہرہ ہی رو بہ رو تھا مرے
ترے سوال سے پہلے ترے سوال کے بعد
فضا میں قوس قزح سی بکھر گئی ہر سمت
ترے جمال سے پہلے ترے جمال کے بعد
کہاں تھی ایک ہی حالت مرے دل و جاں کی
ترے خیال سے پہلے ترے خیال کے بعد
امیر شہر انہیں یاد کر جو ساتھ رہے
ترے زوال سے پہلے ترے زوال کے بعد
کوئی ہے رومیؔ مسلسل سوال کرتا ہے
مرے سوال سے پہلے مرے سوال کے بعد

غزل
کئی سوال مچلتے ہیں ہر سوال کے بعد
رومانہ رومی