کئی سراب ملے تشنگی کے رستے میں
رکاوٹیں ہیں بہت روشنی کے رستے میں
ہمارا آپ کا سر پھوڑنا مقدر ہے
صنم کھڑے ہیں ابھی آدمی کے رستے میں
ہے اس کا ساتھ تو لب پر یہی دعا ہے کہ پھر
نہ آئے اور کوئی زندگی کے رستے میں
وہاں ملا بھی تو اپنا ہی آشنا سا یہ
کھڑے تھے دیر سے ہم روشنی کے رستے میں
نئی ہے فکر مگر لفظ تو پرانے ہیں
قدامتیں ہیں وہیں تازگی کے رستے میں
غزل
کئی سراب ملے تشنگی کے رستے میں
مظہر امام