کئی کوٹھے چڑھے گا وہ کئی زینوں سے اترے گا
بدن کی آگ لے کر شب گئے پھر گھر کو لوٹے گا
گزرتی شب کے ہونٹوں پر کوئی بے ساختہ بوسہ
پھر اس کے بعد تو سورج بڑی تیزی سے چمکے گا
ہماری بستیوں پر دور تک امڈا ہوا بادل
ہوا کا رخ اگر بدلا تو صحراؤں پہ برسے گا
غضب کی دھار تھی اک سائباں ثابت نہ رہ پایا
ہمیں یہ زعم تھا بارش میں اپنا سر نہ بھیگے گا
میں اس محفل کی روشن ساعتوں کو چھوڑ کر گم ہوں
اب اتنی رات کو دروازہ اپنا کون کھولے گا
مرے چاروں طرف پھیلی ہے حرف و صوت کی دنیا
تمہارا اس طرح ملنا کہانی بن کے پھیلے گا
پرانے لوگ دریاؤں میں نیکی ڈال آتے تھے
ہمارے دور کا انسان نیکی کر کے چیخے گا
غزل
کئی کوٹھے چڑھے گا وہ کئی زینوں سے اترے گا
زبیر رضوی