EN हिंदी
کیفیت ہی کیفیت میں ہم کہاں تک آ گئے | شیح شیری
kaifiyat hi kaifiyat mein hum kahan tak aa gae

غزل

کیفیت ہی کیفیت میں ہم کہاں تک آ گئے

سید مبین علوی خیرآبادی

;

کیفیت ہی کیفیت میں ہم کہاں تک آ گئے
بے خودی وہ تھی کہ ان کے آستاں تک آ گئے

وقت کی رو میں بہے تھے جانے کس انداز میں
یہ خبر بھی ہو نہ پائی ہم کہاں تک آ گئے

خود سکون آگہی نے روح کو تسکین دی
ہم بچھڑ کر جب غبار کارواں تک آ گئے

سر‌ فروشان وفا کو بھی نہ چھوڑا عشق نے
مرحلے ساری خطا کے مہرباں تک آ گئے

راہ منزل کی جہاں پہچاننا دشوار تھی
زندگی تیرے قدم ایسے نشاں تک آ گئے

ہر قدم پر ہم کو دنیا روکتی ہی رہ گئی
ایک جذبہ تھا جو تیرے آستاں تک آ گئے

ملنا تھا حسن بیاں کو ایک اظہار خلوص
لفظ و معنی خود بخود اردو زباں تک آ گئے

دیکھنا ہے فیصلہ موج حوادث کا مبینؔ
کشتئ دل لے کے بحر بیکراں تک آ گئے