کیفیت ہی کیفیت میں ہم کہاں تک آ گئے
بے خودی وہ تھی کہ ان کے آستاں تک آ گئے
وقت کی رو میں بہے تھے جانے کس انداز میں
یہ خبر بھی ہو نہ پائی ہم کہاں تک آ گئے
خود سکون آگہی نے روح کو تسکین دی
ہم بچھڑ کر جب غبار کارواں تک آ گئے
سر فروشان وفا کو بھی نہ چھوڑا عشق نے
مرحلے ساری خطا کے مہرباں تک آ گئے
راہ منزل کی جہاں پہچاننا دشوار تھی
زندگی تیرے قدم ایسے نشاں تک آ گئے
ہر قدم پر ہم کو دنیا روکتی ہی رہ گئی
ایک جذبہ تھا جو تیرے آستاں تک آ گئے
ملنا تھا حسن بیاں کو ایک اظہار خلوص
لفظ و معنی خود بخود اردو زباں تک آ گئے
دیکھنا ہے فیصلہ موج حوادث کا مبینؔ
کشتئ دل لے کے بحر بیکراں تک آ گئے
غزل
کیفیت ہی کیفیت میں ہم کہاں تک آ گئے
سید مبین علوی خیرآبادی