EN हिंदी
کیف جو روح پہ طاری ہے تجھے کیا معلوم | شیح شیری
kaif jo ruh pe tari hai tujhe kya malum

غزل

کیف جو روح پہ طاری ہے تجھے کیا معلوم

سکندر علی وجد

;

کیف جو روح پہ طاری ہے تجھے کیا معلوم
عمر آنکھوں میں گزاری ہے تجھے کیا معلوم

نگہ اول بیباک نے میرے دل پر
تیری تصویر اتاری ہے تجھے کیا معلوم

مہر یا قہر ترے چاہنے والے کے لیے
ہر ادا جان سے پیاری ہے تجھے کیا معلوم

وقت کٹتا ہی نہیں صبح مسرت آ جا
رات بیمار پہ بھاری ہے تجھے کیا معلوم

ایک مدت سے یہاں عمر رواں تیرے بغیر
وقف آلام شماری ہے تجھے کیا معلوم

خندہ زن صورت گل دامن صد چاک مرا
پرچم فصل بہاری ہے تجھے کیا معلوم

گل نوخاستہ کانٹوں کو حقارت سے نہ دیکھ
کس کی تقدیر میں خواری ہے تجھے کیا معلوم

وجدؔ نا پیدی احساس مسرت کا سبب
عادت گریہ و زاری ہے تجھے کیا معلوم