EN हिंदी
کیف ادا بھی ہے نگہ پرفتن کے ساتھ | شیح شیری
kaif-e-ada bhi hai nigah-e-pur-fitan ke sath

غزل

کیف ادا بھی ہے نگہ پرفتن کے ساتھ

منظور احمد منظور

;

کیف ادا بھی ہے نگہ پرفتن کے ساتھ
لگتی ہے دل پہ چوٹ مگر بانکپن کے ساتھ

خنکی ہے چاندنی میں تمازت ہے دھوپ میں
تشبیہ کس کو دیں ترے نور بدن کے ساتھ

سر دے کے سرخ رو تھے کبھی بندگان عشق
رسم کہن تھی ختم ہوئی کوہ کن کے ساتھ

اک مصلحت کی مہر ہے لب پر لگی ہوئی
ورنہ ہزار شکوے ہیں اہل وطن کے ساتھ

وہ شعر نغز کیوں نہ ہو جزو رگ حیات
کچھ فکر کا رچاؤ بھی جس میں ہو فن کے ساتھ