کہوں جو کرب فقط کرب ذات سمجھو گے
مگر کبھی تو مری نفسیات سمجھو گے
یہ عمر جاؤ بھی دو چار دن کی کیا ہے بساط
ابھی کہاں سے غم کائنات سمجھو گے
مرا وجود صلہ ہے مری شکستوں کا
بگڑ بگڑ کے بنوگے تو بات سمجھو گے
ابھی تو جنبش لب پر ہزار پہرے ہیں
جو لب کھلے بھی تو کیا دل کی بات سمجھو گے
ادھر نہ آؤ اب اس شہر میں اجالوں کے
وہ تیرگی ہے کہ دن کو بھی رات سمجھو گے

غزل
کہوں جو کرب فقط کرب ذات سمجھو گے
آفتاب عارف