کہتی ہوئی یہ مجھ سے ہوائے سحر گئی
دشت طلب میں شبنم احساس مر گئی
رکھا نہ تھا قدم ابھی دشت سکوت میں
آواز میری اپنے ہی سائے سے ڈر گئی
میں اس کا نوحہ بن کے اندھیرے میں گھل گیا
وہ اک کرن جو میرے لئے در بدر گئی
میں لکھ رہا تھا پھول کی پتی پہ تیرا نام
کانٹے کی نوک سینۂ گل میں اتر گئی
محفل میں رات نت نئے چہروں کے شور میں
وہ کون تھا کہ جس سے لپٹنے نظر گئی
جس سے تھی آبروئے تلاطم وہ موج بھی
خالدؔ کنار خاک پہ سر رکھ کے مر گئی

غزل
کہتی ہوئی یہ مجھ سے ہوائے سحر گئی
خالد شیرازی