EN हिंदी
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو | شیح شیری
kahte ho ittihad hai hum ko

غزل

کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو

میر تقی میر

;

کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو

شوق ہی شوق ہے نہیں معلوم
اس سے کیا دل نہاد ہے ہم کو

خط سے نکلے ہے بے وفائی حسن
اس قدر تو سواد ہے ہم کو

آہ کس ڈھب سے روئیے کم کم
شوق حد سے زیاد ہے ہم کو

شیخ و پیر مغاں کی خدمت میں
دل سے اک اعتقاد ہے ہم کو

سادگی دیکھ عشق میں اس کے
خواہش جان شاد ہے ہم کو

بد گمانی ہے جس سے تس سے آہ
قصد شور و فساد ہے ہم کو

دوستی ایک سے بھی تجھ کو نہیں
اور سب سے عناد ہے ہم کو

نامرادانہ زیست کرتا تھا
میرؔ کا طور یاد ہے ہم کو