کہو نہ یہ کہ محبت ہے تیرگی سے مجھے
ڈرا دیا ہے پتنگوں نے روشنی سے مجھے
سفینہ شوق کا اب کے جو ڈوب کر ابھرا
نکال لے گیا دریائے بے خودی سے مجھے
ہے میری آنکھ میں اب تک وہی سفر کا غبار
ملا جو راہ میں صحرائے آگہی سے مجھے
خرد انہی سے بناتی ہے رہبری کا مزاج
یہ تجربے جو میسر ہیں گمرہی سے مجھے
ابھی تو پاؤں سے کانٹے نکالتا ہوں میں
ابھی نکال نہ گلزار زندگی سے مجھے
زبان حال سے کہتا ہے ناز عشوہ گری
حیا چھپا نہ سکی چشم مظہری سے مجھے
برائے داد سخن کاسۂ سوال ہو دل
خدا بچائے جمیلؔ اس گداگری سے مجھے
غزل
کہو نہ یہ کہ محبت ہے تیرگی سے مجھے
جمیلؔ مظہری