EN हिंदी
کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں | شیح شیری
kaho buton se ki hum taba sada rakhte hain

غزل

کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں

سید عابد علی عابد

;

کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں
پھر ان سے عرض وفا کا ارادہ رکھتے ہیں

یہی خطا ہے کہ اس گیر و دار میں ہم لوگ
دل شگفتہ جبین کشادہ رکھتے ہیں

خدا گواہ کہ اصنام سے ہے کم رغبت
صنم گری کی تمنا زیادہ رکھتے ہیں

دکان بادہ فروشاں کے صحن میں عابدؔ
فرشتے خلد کا اک در کشادہ رکھتے ہیں