کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں
پھر ان سے عرض وفا کا ارادہ رکھتے ہیں
یہی خطا ہے کہ اس گیر و دار میں ہم لوگ
دل شگفتہ جبین کشادہ رکھتے ہیں
خدا گواہ کہ اصنام سے ہے کم رغبت
صنم گری کی تمنا زیادہ رکھتے ہیں
دکان بادہ فروشاں کے صحن میں عابدؔ
فرشتے خلد کا اک در کشادہ رکھتے ہیں
غزل
کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں
سید عابد علی عابد