کہنے سننے سے مری ان کی عداوت ہو گئی
جو نہ ہونی تھی وہ غیروں کی بدولت ہو گئی
روز آتی ہے مگر اک روز بھی آتی نہیں
اے اجل تو بھی مرے حق میں قیامت ہو گئی
میرے ان کے اب کہاں پہلا تپاک عاشقی
چلتے پھرتے مل گئے صاحب سلامت ہو گئی
سمجھے تھے دشت جنوں میں کچھ بہل جائے گا دل
دیکھ کر سنسان جنگل دونی وحشت ہو گئی
شکل دکھلاتی نہیں شیشہ سے آ کے جام میں
دختر رز تو تو ابھی سے بے مروت ہو گئی
مرگ عاشق کا عبث ہے سوگ ہر دم اس قدر
چھٹ گیا وہ قید غم سے تم کو فرصت ہو گئی
فصل گل آئی بڑھے جوش جنوں کے ولولے
پھر وحی تسلیمؔ اپنی غیر حالت ہو گئی
غزل
کہنے سننے سے مری ان کی عداوت ہو گئی
امیر اللہ تسلیم